غیرت کے نام پر قتل،ملزم اکثر بری ہو جاتے ہیں

غیرت کے نام پر قتل، ملزم اکثر بری ہو جاتے ہیں تحریر: مبشر مجید آسما بی بی کو پنچائیت میں نہیں بلکہ گھر میں قتل کیا گیا تھا جب سے وہ راضی نامے کے بعد گھر واپس آئی تھی اس کے چچا محمد ادریس کی آنکھوں پر خون سوار تھا اور آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ صغریٰ بی بی نم آنکھوں سے اپنی 18 سالہ پوتی کے قتل کا قصہ سنا رہی تھی۔ ان نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں معمولی جھگڑا بھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ خاندان کی عزت کی خاطر جان لینے کا رواج نسلوں سے چلا آ رہا ہے لیکن کوئی بھی شکوہ نہیں کر سکتا۔ چک نمبر 44 ڈبلیو بی کی بستی کاہلوں والی میں کھیتوں کے بیچوں بیچ بنائے گئے گھر میں رہنے والے اس خاندان کا رسم و رواج پر بہت پختہ یقین تھا اسی لیے محمد رفیق نے اپنی بیٹی آسما کی شادی قیریبی رشتہ داروں میں کرنے کا سوچا اور چک 15/73 ایل میں محمد جاوید کے ساتھ نکاح کر دیا۔ صغریٰ بی بی نے بتایا کہ آسما اس نکاح سے ناخوش تھی اور ابھی رخصتی ہونا باقی تھی۔ چونکہ آسما کی والدہ نسیم بیگم اسے بچپن ہی میں چھوڑ کر چلی گئی تھی اس لیے رشتے سے ناخوش ہونے کا اظہار اس نے اپنی دادی سے کیا لیکن صغریٰ بی بی بے بس تھی۔ آسما اپنی ایک بہن اور والد کے ساتھ ملتان میں مقیم تھی اوراس کی پسند جعفر بھی اس کے ہونے والے سسرالی گاوں سے تھا۔ اپریل میں آسما اپنے عارضی گھر مصطفیٰ آباد ملتان سے جعفر کے ساتھ بھاگ گئی اس والد نے اس کے اغوا کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کرا دیا۔ تمام کوششوں کے بعد بھی آسما کی فیملی اسے اور جعفر کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی اور قریبی رشتہ داروں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اگر دونوں واپس آ جائیں تو ناصرف انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ ان کی شادی بھی کر دی جائے گی۔ جس پر آسما اور جعفر واپس آنے پر راضی ہوگئے۔ صغریٰ بی بی نے بتایا کہ دوسری جانب آسما کا باپ رفیق اور چچا ادریس اس کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ آسما کو گھر آنے پر موقع پا کر ادریس گولی مار دے گا جبکہ رفیق مقدمہ کا مدعی بن کر بعد ازاں صلاح کرلے گا اس طرح کسی کو شک بھی نہیں گزرے گا۔ گھر آنے پر اسی رات 9 بجے کے بعد رفیق کے ساتھ معولی تلخ کلامی کے بعد ادریس نے آسما کو گولی مار دی جو اس کی پیشانی میں لگی اور وہ موقع پر وفات پاگئی۔ پولیس ذرائع کے مطابق جب ادریس گرفتار ہوا تو معاملے میں باہم صلاح مشورے سے قتل کا شک گزرا جس کے بعد عدالت سے جسمانی ریمانڈ لیے اس دوران محمد رفیق نے اقبال جرم کر لیا۔ ملزمان گرفتار ہو کر جیل چلے گئے اور مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ صغریٰ بی بی کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میری پوتی کو مارنے کی بجائے اسے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے دیا ہوتا۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے دی ڈپلومیٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 470 کیسز غیرت کے نام پر قتل کے رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ ہر سال ایک ہزار خواتین اس رواج کی بھینٹ چڑھتی ہیں پنجاب پولیس کے آن لائن اعدادوشمار کے مطابق 2011 سے 2020 تک پنجاب میں 2957 غیرت کے نام پر قتل رپورٹ ہوئے جن میں ملتان ریجن کے 318 اور وہاڑی کے 65 کیسز شامل ہیں 2019 سے اب تک 27 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ رپورٹ ہونے والے مقدمات کی تعداد تو کم ہو رہی ہے لیکن واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری سردار مصور خان بلوچ نے بتایا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کا قانون بہت کمزور ہے جس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہوتا ہے ایسے واقعات میں کوئی گواہ نہیں بنتا کیونکہ دوران تفتیش گواہ کی حفاظت کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ اگر گواہ کو خفیہ رکھا جائے تو تفتیش بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے اس کے علاوہ تفتیش میں جدت لانے کی ضرورت ہے پرانے طریقہ کار سے بہتر نتائج نہیں مل سکتے۔ خاتون وکیل لبنیٰ احتشام ایڈووکیٹ نے کہا کہ صرف خواتین ہی غیرت کے نام پر قتل نہیں کی جاتیں بلکہ مردوں کو بھی اتنے ہی تحفظات ہیں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز وہاڑی کے علاقہ مسلم ٹاون میں پیپلز کالونی کا نوجوان لڑکی سے ملنے گیا اور پکڑا گیا لڑکی کے گھر والوں نے مبینہ طور پر پٹرول چھڑک کر اس کو آگ لگا دی اور شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے اور جھلسنے کا واقعہ بنا لیا اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے آگاہی ضروری ہے وہاڑی کے تھانہ مترو میں جنوری 2020 میں مقدمہ نمبر 20/48 درج ہوا جس میں محمد سلیم نامی شوہر نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر اپنی ہی بیوی آمنہ بی بی کو اس الزام کی بنا پر قتل کر دیا کہ اس کے کسی ذیشان نامی شخص سے ناجائز تعلقات ہیں اور پولیس کے مدعی ہونے باوجود دونوں ملزمان دسمبر 2020 کو بری ہو گئے مبینہ طور پر انہیں شک کا فائدہ ہوا جبکہ اسی طرح کا ایک اور مقدمہ جو دسمبر 2020 میں درج ہوا جس میں ملزم نے اپنی بیوی اور ساس پر ٹوکے سے وار کیے بیوی قتل جبکہ ساس زخمی کر دی اور ستمبر 2021 میں اسے 25 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس کے علاوہ تمام کیسززیر سماعت ہیں اور کئی سال گزرنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پایا۔ سماجی رہنما نوشین ملک کا کہنا ہے کہ خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گھناونی رسم کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے ناصرف آگاہی بلکہ بہتر قانون سازی بھی کرنا ہو گی انہوں نے بتایا کہ لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کر کے اور ان کو فیصلہ سازی کا اختیار دے کر ہم ایسے واقعات میں کمی لا سکتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل،ملزم اکثر بری ہو جاتے ہیں